چہ قلندرانہ گفتم | کس نمی پُرصد کہ بھیا کیستی
١٢ اکتوبر کی شام ڈھلی تو دو تہائی اکثریت چار فوجی ٹرکوں میں سوار چند درجن فوجی اہلکاروں کے بوٹوں تلے کچلی جا چکی تھی - جنرل مشرف کے اس بیان کہ بعد کہ " اگرمیاں نواز شریف مجھے فوج سے برطرف نہ کرتا تو آج بھی مسند اقتدار پر فائز ہوتا " اس بات پر بحث کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت نے کیا غلط کیا اور کیا سہی.- نوے دن کی قید اور پھر جلا وطنی , کہنے کو تو خوب موج کی مگر کبھی کوئی دشمن بھی موج میلے کا ایسا انتظام کر کے دیتا ہے؟
یہ سن ٩٠ ہے اور تاریخ ١٢ جون سندھ کے وزیراعلی جام صادق کے مطابق میاں نواز شریف ،غلام اسحاق خان اور ان کے قتل منصوبہ ناکام - جام صاحب کے بقول جن لوگوں کو حراست میں لیا گیا وہ الزولفقار نامی تنظیم کے رکن تھے- قتل کا ایسا ہی ایک منصوبہ ٩٦ کی پی پی حکومت کے دور میں بنایا گیا اور اب کے بدین جگہ تھی -اس بار بھی پی پی پی کے غنڈوں کا منصوبہ بے عیب تھا- میاں نواز شریف لیگی کارکنوں اور اے این پی کے لوگوں کے ہمراہ مرحوم ہاری رہنما فاضل راہو کی برسی سے خطاب کرنے جا رہے تھے- پی پی پی کے غنڈوں نے قافلے پر پتھروں کی بوچھاڑ کر دی جس کے نتیجے میں لیگی لیڈر بیگم راحت جاوید اور عبد الرؤف راجہ زخمی ہو گۓ - اخباری خبروں کے مطابق میاں نواز شریف اور اجمل خٹک اس حملے میں بال بال بچ گۓ-
یہ بی بی کی دوسری حکومت تھی -جب ملک کے سیاہ و سفید کی مالک پیپلز پارٹے تھی - سیاست میں اپنے حریف کو زیر کرنا چونکہ پیپلز پارٹے کی پرانی موروثی خواہش رہی ہے اس لئے ٩٣ سے ٩٦ تک مسلم لیگ بالعموم اور شریف خاندان بلخصوص فاشسٹ حکومت کا تختہ مشق بنا رہا.- میاں صاحبان تو چلیں اسمبلیوں کا حصّہ تھے ، ایک جیتی جاگتی سیاسی پارٹے کا سر چشمہ تھے ، مگر بی بی کی حکومت میں میاں شریف تک کو نہیں بخشا گیا.- بی بی کی حکومت کے آخری سال خواجہ سعد رفیق سے لے کر پنجاب میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سب جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے.- کیا تھا جو نہ ہوا - شہباز شریف جیل میں سجاد حیدر نامی اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے کی بربریت کا نشانہ بن رہے تھے- مسلم لیگی کارکنوں پر ملک بھر میں عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا تھا.- نواز و دیگر لیگی لیڈران کو قید میں بند لیگی لیڈروں سے ملنے کی اجازت نہ تھی - جنوری ٩٦ کے ایک اخبار کے مطابق شہباز شریف نے اسلام آباد تھانے میں سجاد حیدر کے خلاف غیر قانونی تشدد کی ایک شکایت درج کروائی - قید کے ڈر سے جدہ بھاگنے کے طعنے دینے والے انقلابی کیا جانیں سیاست کس تپسیا کا نام ہے- نومبر ٩٥ سے ٩٦ کے وسط تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے کبھی اڈیالہ اور کبھی اٹک کا قلعہ اور الزام وہی منی لانڈرنگ اور فراڈ کے جو اس وقت بھی الزام تھے اور آج بھی ممی ڈیڈی انقلابیوں کے دل کے ارماں - میاں شریف کو بلاوجہ ائیرپورٹ پر ہراساں کرنا ، شریف خاندان کے کاروبار کو تباہ کرنا یہ سب بی بی کے حکومتی کارنامے تھے.-
January 1, 1996 THE NATION |
اپوزیشن لیڈر نواز شریف کے پے در پے دوروں سے گھبرا کر پی پی پی کی حکومت نے سندھ میں ایک نئی حکمت عملی بنائی - میاں نواز شریف کے ہالا کے دورے کے دوران لیگی قافلے پر حملہ کروایا گیا اس حملے میں سابق صوبائی وزیر اسماعیل راہو سمیت ١٢ کارکن زخمی ہوے.- میاں نواز شریف محفوظ رہے- اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوے بی بی نے پولیس کو واضح احکامت دیے کہ جو ہوتا ہے ہونے دو - پولیس افسر ہالا ریاض حسین سومرو اپنے اہلکاروں کے ہمراہ اس موقعہ پر خاموش تماشائی بنے رہے - آج نائب وزیر اعظم کا غیر آینی عھدہ اور پروٹوکول کے مزے لوٹنے والے اس وقت پنجاب میں قائم مقام اپوزیشن لیڈر تھے- کسے معلوم تھا کہ سندھ کے وزیر اعلی عبدللہ شاہ کومیاں صاحب پر حملے کے جرم میں مقدمے میں ڈالنے کا مطالبہ کرنے والے ہی سب سے پہلے ساتھ چھوڑ جائیں گے.-
پھر مارچ ١٩٩٩ آ گیا.- میاں نواز شریف کی پرعزم قیادت سے خائف ملک دشمنوں کا ایک اور منصوبہ طشت از بام ہوا جب حساس اداروں نے ٥ دہشت گردوں کو اسلام آباد سے گرفتار کیا- ایک مذہبی انتہا پسند تنظیم کے یہ رکن ایک لیگی جلسےمیں میاں نواز شریف کو بم سے شہید کر دینا چاہتے تھے - یہ مذہبی گروپ وہی تھا جس نے جنوری ٩٩ میں لاہور رائیونڈ روڈ پر واقع ایک پل کو میاں نواز شریف کو شہید کرنے کی غرض سے بم سے اڑا دیا تھا- خوش قسمتی سے وزیر اعظم کے آنے سے چند منٹ قبل بم اپنا کام دکھا چکا تھا-
ان سطور کو رقم کرنے کا مقصد صرف ان نونہال انقلاب کو یہ باور کروانا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی انسان اپنی جان خطرے میں ڈالے بغیر انقلاب نہیں برپا کر سکتا - میاں نواز شریف کو بزدلی کے طعنے لگانے والے گرایپ واٹر انقلابی بچوں کے لئے یقیناً یہ باتیں نئی ہیں مگر جان لیں کہ تاریخ سے بے بہرہ لوگ کبھی انقلاب نہیں لا سکتے
١٢ اکتوبر کی شام ڈھلی تو دو تہائی اکثریت چار فوجی ٹرکوں میں سوار چند درجن فوجی اہلکاروں کے بوٹوں تلے کچلی جا چکی تھی - جنرل مشرف کے اس بیان کہ بعد کہ "اگر میاں نواز شریف مجھے فوج سے برطرف نہ کرتا تو آج بھی مسند اقتدار پر فائز ہوتا " اس بات پر بحث کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت نے کیا غلط کیا اور کیا سہی؟ نوے دن کی قید اور پھر جلا وطنی کہنے کو تو خوب موج کی مگر کبھی کوئی دشمن بھی موج میلے کا ایسا انتظام کر کے دیتا ہے.؟
(حدید شیر )
No comments:
Post a Comment