Sunday, September 15, 2013

Column

100 days of PMLN government

This column was published in Daily Pakistan dated September 15, 2013

مفاہمت کی سیات کا نعرہ بے نظیر بھٹو نے لگایا تھا، مگر اس نعرے کو عمل میں محمد نواز شریف نے ڈھالا ہے!

یہی وجہ ہے کہ آج آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ نواز شریف قدم بڑھاﺅ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور عمران خان نے بھی نواز شریف کے گن گائے ہیں ،اس سے قبل کراچی میں جب نواز شریف نے کہا کہ وہ کراچی میں بے امنی پر سیاست نہیں کریں گے اور ٹارگٹڈ آپریشن کے کپتان وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ ہوں گے ،تو صورت حال نے ایک بہت بڑی اور مثبت کروٹ لی، مفاہمت کی داعی ہونے کے باوجود پیپلزپارٹی اپنے دور اقتدار میں پنجاب کے اندر اس طرح کا لیڈنگ رول ادا نہ کر سکی ، یہ اس بڑی اور مثبت تبدیلی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج پی ٹی آئی پنجاب کی جانب سے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر احتجاج شروع کرنے کے اعلان سے ہوا نکل گئی اور پیپلز پارٹی نے بھی غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات کے خلاف جنگ سڑکوں پر لڑنے کے بجائے عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹادیاہے!

اس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ اپنے پہلے سو دنوں میں نواز شریف نے مخالفین کو اپنا ہمنوا بنا لیا ہے اور یہ تاثر کہ پہلے سو دنوں میں ہی حکومت اپنی افادیت کھو بیٹھی ہے غلط ثابت ہوا ہے، اس صورت حال کے پیدا ہونے کی ایک اور بڑی وجہ بجلی کی فراہمی میں قدرے بہتری بھی ہے ، خاص طور پر جب کہ نئی حکومت کے قیام کے بعد سے جبری لوڈشیڈنگ کا سلسلہ تھم چکا ہے ،اب پہلے والی بات نہیں کہ تین تین گھنٹے تک بجلی کا کچھ اتا پتہ نہ ہو، اس میں بھی شک نہیں کہ 2013ءکے عام انتخابات میں لوگوں نے ووٹ بھی بجلی کے خلاف ڈالا تھا، خاص طور پر پنجاب کے عوام نے، اس لئے لوگ مہنگائی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کو محض اس لئے نظر انداز کئے ہوئے ہیں کہ ان کے نزدیک بجلی کی ترسیل میں بہتری ان کے ووٹوں کا بہترین انعام ہے، کیونکہ بجلی نہ ہونے سے لوگوں کے روزگار ختم ہو چکے تھے کیونکہ فیکٹریاں بند پڑی تھیں،نتیجتاً بازاروں میں خریدو فروخت کا جنازہ نکل چکا تھا، اب جوں جوں بجلی کی فراہمی میں آسانی پیدا ہو رہی ہے لوگوں کو ریلیف محسوس ہو رہا ہے، وزیراعلیٰ پنجاب علیحدہ سے آئے روز بجلی کے نت نئے منصوبوں کے اعلانات کر کے ماحول کو گرم رکھے ہوئے ہیں، اگر وہ اسی تواتر سے بجلی کے منصوبوں کے اعلانات فرماتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب لوگ انہیں ’شہباز بجلی‘ کہہ کر بلانا شروع کر دیں گے، اسی طرح اس کے باوجود کہ ملک میں مہنگائی ہے، اشیائے ضرورت کی قلت نہیں ہے، اصل مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب شیر آٹا کھا جاتا ہے اور لوگ آٹے کے ٹرکوں پیچھے لائن لگائے کھڑے ہوتے ہیں، اس وقت ایسی صورت حال نہیں ہے ،آٹے، گھی، چینی کی فراوانی ہے ، فرق پڑا ہے تو بس اتنا کہ لوگوںنے ایک کلو کی جگہ آدھا کلو خرید کر کھانا پکانا شروع کر دیا ہے!

یہ کہا جا سکتا ہے کہ شہباز شریف اگر گڈ گورننس کے ماہر تھے تو نواز شریف گڈ مینجمنٹ کے ماہر ثابت ہوئے ہیں، وہ سب کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں، اپنی منوائی ہو یا نہ ہو، لیکن اپنا آپ ضرور منوا رہے ہیں، تاہم پھر بھی کسی کو کوا سفید نظر آتا ہے تو یہ الگ بات ہے!

اے پی سی نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستانی عوام مقامی طور پر جب کہ لیڈر شپ بین الاقوامی تناظر میں سوچ رہی ہے، یہی وجہ ہے عام لوگ تو ایک دوسرے سے سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ موجودہ حالات کیا ہیںاور آگے کیا رُخ اختیار کریں گے ، خاص طور پر جنہوں نے اینٹی نواز ووٹ ڈالا تھا وہ چاہتے ہیں کہ مہنگائی ، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اور کراچی کی بے امنی ایسے مسائل جس قدر جلد ہوں قابو سے باہر ہو جائیں تاکہ حکومت کے خلاف ایک تحریک کا آغاز کیا جا سکے ، لیکن نواز شریف نے حالات کی سنگینی سے انکار کے بجائے اپنے آپ کو اپوزیشن کے ساتھ کھڑا کر لیا ہے ، یا یوں کہئے کہ سب کو حکومت میں شامل کر لیا ہے ، اب اپوزیشن بھی نواز شریف کی کابینہ ہے، ان کو صلاح مشورے دے رہی ہے ،یہی وجہ ہے ہمارا میڈیا مہنگائی کے بجائے طالبان کو ڈسکس کرنے لگا ہے اور عوام کی نمائندگی اب عوام کے مسائل ہی کر رہے ہیں، کیونکہ سیاسی لیڈرشپ تو حکومت کی نمائندہ بن گئی ہے ، دوسرے لفظوں میں سیاسی قیادت حکومت کے پیچھے کھڑی ہے اور عوام اپنے مسائل کے پیچھے، یعنی اُدھرتم ، ادھر ہم!

نواز شریف کہتے ہیں وہ سیاست نہیں کریں گے، آصف علی زرداری کہتے ہیں وہ سیاست نہیں کریں گے، باقیوں کا بھی یہی حال ہے۔ سوال یہ ہے کہ سیاست نہیں ہو رہی ہے تو ملک میں کیا ہو رہا ہے.... صرف مفاہمت؟....حالانکہ سیاست میں مفاہمت اور مفاہمت کی سیاست میں فرق ہوتا ہے، ہم سیاست کرتے ہیں تو مفاہمت کی ضرورت پڑتی ہے، اب مفاہمت کر رہے ہیں تو اس سے سیاست جنم لے گی، مفاہمت اور سیاست میں بہت باریک لکیر ہے اور یہ لکیر سب کی نظر میں ہے!

نواز شریف نے 100دنوں میں مفاہمت پیدا کر لی، سب کو ایک میز پر لا بٹھایا، سب کے ساتھ گفتگو کی، کیا مہنگائی کے مسئلے پر بھی سب ایسے ہی اے پی سی میں بیٹھیں گے، کیا بلدیاتی انتخابات کا قضیہ بھی کسی اے پی سی میں نہیں نمٹایا جا سکتا، مفاہمت کی سیاست ان محاذوں پر ناکام کیوں ہے؟؟؟....
 

No comments:

Post a Comment