News reel

Followers

Wednesday, September 4, 2013

Shahbaz Shairf address to Punjab Governance Forum 2012

Shahbaz Shairf address to Punjab Governance Forum 2012

میرے لئے یہ امر باعث اعزاز ہے کہ مجھے پنجاب گورننس فورم2012ءکی اس تقریب میں شامل ہوکر پنجاب میں حکومت کی کارکردگی کو مزید بہتربنانے کیلئے فاضل مقررین کے گرانقدر خیالات اور سفارشات سے آگاہی حاصل ہوئی ہے۔آج کی اس تقریب کے انعقاد کا مقصد حکومتی کارکردگی کا اعادہ نہیں بلکہ ہمارے لئے یہ بات زیادہ اہم ہے کہ ہم آپ کے مشورے اور آپ کی مہارت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک بہتر حکومت کے قیام کیلئے دیرپا اقدامات وضع کر سکیں جو سیاسی تبدیلیوں سے متاثر نہ ہوں۔ یہ وہ عوام دوست اور ملک دوست پروگرام ہونے چاہئیں جو آنے والے ہر طرح کے حالات میں جاری و ساری رہیں۔ میرے خیال میں آج کے اس پروگرام کے تمام مباحث کا مطلوب و مقصود یہی ہونا چاہئے اور میری بھی یہ کوشش ہوگی کہ میں کسی بات کو دہرائے بغیر اس مقصد کے حصول میں اپنا حصہ ڈال سکوں۔میں خود ستائی سے گریز کرناچاہتا ہوں لیکن میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جب ہم نے حکومت شروع کی تو ہمیں پچھلی حکومت سے ورثے میں کیا ملا؟ ہم نے چیزوں کی اصلاح کیلئے کیا اقدامات کئے؟ آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہمارے مثبت اور منفی پہلو کیا ہیںاور سب سے بڑھ کر یہ کہ آنے والے دنوں میں ہم ملک کے حالات کس طرح بہتر بنا سکتے ہیں؟ کسی طویل بحث و مباحثہ میں پڑے بغیر میں اپنی گفتگو کا آغاز ایک مثال سے کرناچاہوں گا۔2008ءمیں جب ہم نے پنجاب حکومت سنبھالی تو میں نے ایک منصوبے کا دورہ کیا جو ” لاہور قصور روڈ“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ 5ارب روپے کا ایک پراجیکٹ تھا جس کی منظوری2005ءمیں دی گئی اور اسے 2007ءمیں مکمل ہونا تھا۔ اس منصوبے کا میرا پہلا دورہ میرے لئے کسی ڈراﺅنے خواب سے کم نہ تھا۔دورے کے دوران یہ شرمناک حقیقت میرے علم میں آئی کہ منصوبے پر کسی تعمیراتی کام کے بغیر اربوں روپے کے فنڈز خوردبرد کرلئے گئے تھے۔موبلائزیشن ایڈوانس کے نام پر بھاری رقوم ادھر سے ادھر کردی گئی تھیں۔یہ تمام پیشگی ادائیگیاں مسلمہ اصول و ضوابط کو پس پشت ڈال کر کی گئی تھیں اور ان کےلئے جعلی گارنٹیوں کا سہارا لیا گیا تھا۔منصوبے کے ایسے حصوں کی تکمیل کا معاوضہ بھی ادا کردیا گیا تھا جنہیں عملی طورپر چھوا بھی نہیں گیا تھا۔تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی با آسانی اس نتیجے پر پہنچ سکتا تھا کہ منصوبے کے نام پر جاری ہونے والے خطیر فنڈز یہاں سے بہت دورکہیں محفوظ ہاتھوں میں پہنچادئیے گئے ہیں اور عوامی فلاح کے نام پر تیارکیا گیامنصوبہ عملی طورپر ایک صحراءکا نقشہ پیش کررہا تھا۔صورتحال اس قدر دگرگوں تھی کہ اس منصوبے پرکام اور اسکی تکمیل کے بارے میں کوئی حتمی پیش گوئی کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتاتھا۔ میںنے دو برسوں میں پانچ مرتبہ اس منصوبے کا دورہ کیا،کئی ٹھیکیدار تبدیل کئے ان میں سے بعض بد عنوانوں کو گرفتارکرایاگیا، بعض سرکاری افسر معطل ہوئے اور پھر آخر کار ہم اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے۔یہ منصوبہ جو حقیقی معنوں میں سابق دور کی کرپشن کاقبرستان تھا آج عملی طورپر عوامی فلاح کا ایک مینار بن چکا ہے۔یہ سب کچھ نیک نیتی، محنت اور انتھک کوششوںسے حاصل ہونے والے نتائج کا ایک جیتا جاگتا شاہکار ہے۔ آپ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ یہ سب کچھ محض ایک فرد واحد کی کوششوں کا مرہون منت نہیں۔دنیابھرمیں اس طرح کے جتنے بھی کام ہوئے ہیں وہ اجتماعی دانش اور مشترکہ کوششوں اور ارادوں کے ذریعے ہی ممکن ہوسکے ہیں۔
اس معاملے میں اصل بات بے حسی،لا تعلقی اورکرپشن کے اس کلچر کو شکست دینا تھا جس کی جڑیں بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں بہت دورتک چلی گئی ہیں۔اس وقت پنجاب میں، میں خود اور میری ٹیم جس میں میرے سیاسی رفقاءاور بیورو کریٹ دونوں شامل ہیں اسی کلچر کے خلاف صف آراءہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم مشترکہ مفادات رکھنے والے مافیا کے اس ناپاک گٹھ جوڑ کے خلاف یہ جنگ لڑ رہے ہیںجس کی جڑیں ہر اس معاشرے میں بہت گہری ہوتی ہیں جہاں ادارے ابھی ابتدائی حالت میں ہوتے ہیں اور احتساب کا کوئی مضبوط نظام موجود نہیں ہوتا۔
 1998ءمیں ہم نے اپنے پہلے دور حکومت میں اہم منصوبوں میں تھرڈ پارٹی آڈٹ سسٹم متعارف کرانے کا پروگرام وضع کیا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ایک خاص مالیت سے زیادہ کا منصوبہ چاہے اس کا تعلق انفراسٹرکچر سے ہو،سوشل سیکٹر سے یا محکمہ صحت سے، اس میں ٹرانسپرنسی کے تقاضوں کو برقرار رکھنے کیلئے تھرڈ پارٹی آڈٹ ضروری ہوناچاہئے۔ جب اللہ کے فضل سے ہمیں صوبے میں عوام کی خدمت دوبارہ کرنے کا موقع ملا تو یہ سسٹم ایک مدت سے کرپشن کے ڈھیروں تلے دب چکا تھا۔ ہم نے گزشتہ چار سالوں میں مسلسل کوششوں کے بعد اسے پنجاب میں دوبارہ متعارف کرایا۔اگر کوئی مجھ سے یہ سوال کرے کہ کیا اس خودمختار آڈٹ سسٹم کا دائرہ کار پورے پنجاب پر محیط ہے یا نہیں؟ تو میرے لئے اس سوال کا اثبات میں جواب دینا یقینا مشکل ہوگا۔
 تاہم یہ بات میں پورے اطمینان کے ساتھ اور بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ ہم اس نظام کو نافذ کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں، اس میں روز بروز بہتری آرہی ہے اور یہ کہ اس کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔یہاں میں آپ کی خدمت میں ایک اور مثال پیش کرناچاہتا ہوں۔جی ہاں! اسی شہر لاہور میں یعنی حکومت کی عین ناک کے نیچے باب پاکستان کامنصوبہ زیر تکمیل ہے۔تقریباً4ارب روپے کی مالیت کا یہ منصوبہ 2004-05میں شروع کیا گیاتھا۔میں اس میں ہونے والی تاخیر کے اسباب میں نہیں جانا چاہتا۔اس میں وقت کا بہت ضیاع ہوگا اور اس کیلئے بعض حساس پہلوﺅں کا تذکرہ ضروری ہوجائے گا لیکن میں اس منصوبے کے اس پہلو کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس منصوبے میں استعمال ہونے والا سنگ مر مر اٹلی سے درآمد کیاجانا تھا۔
 اس سفید سنگ مر مر پر اس غریب قوم کے 90کروڑ روپے صرف کئے جانے تھے۔جب اس منصوبے کے اپنے پہلے دورے دوران میں نے یہ سوال کیا کہ ہمیں اس منصوبے کیلئے سنگ مر مر درآمد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ تو مجھے جواب ملا کہ ” جناب یہ ایک بہت بلند مینار ہوگا۔ ہم اس کے اوپر یہ سنگ مر مر لگائیںگے اور لوگ دیکھیں گے کہ کس طرح تقسیم کے بعد یہاں پر قافلوں نے پڑاﺅ ڈالا اور یہاں پہ قیام کیا۔“ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا 90کروڑ روپے کی خطیر رقم سے لگائے جانے والے سنگ مرمر سے ہم اس بات کی ترجمانی کراناچاہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام بہت خوشحال ہیں؟ کیا یہ سنگ مرمر اس امر کی گواہی دے گا کہ یہاں امیر اور غریب کا فرق مٹ چکا ہے؟ کیا اس سے یہ ثابت ہوگا کہ ہم غربت اور بیروزگاری کے مسائل پر قابو پاچکے ہیں؟ میں نے ان سے کہا کہ آخر ہم اس طرح کے کاموں سے کسے بیوقوف بناناچاہتے ہیں۔ ہمیں اتنی بڑی رقم اوروہ بھی زرمبادلہ میں ضائع کرتے ہوئے شرم آنی چاہئے۔
     میرے اس فیصلے کی پوری شدومد کے ساتھ مخالفت کی گئی اور اس وقت کے ڈکٹیٹر کے مقرر کئے ہے کنسلٹنٹ جو جنرل قیوم کا قریبی دوست تھا،نے صاف الفاظ میں کہا کہ ” نہیں جناب چیف منسٹر! یہ بہت ضروری ہے بصورت دیگر اس منصوبے کی خوبصورتی تباہ ہوجائے گی۔“ اس موقع پر مجھے اپنا اختیار استعمال کرنا پڑا۔ تاہم وہ پھر بھی بڑی دیر تک اپنی انا پر اڑے رہے۔آخر کار میں بصد مشکل انہیں پاکستان کے شمالی حصوں میں پائے جانے والے سنگ مرمر کے استعمال پر راضی کرنے میں کامیاب ہوگیا جس کی مالیت 30کروڑ روپے تھی۔میں سمجھتا ہوں کہ آج کے سیمینار کے انعقاد کا واحد مقصد اس ایک مثال میں تلاش کیاجاسکتا ہے۔اصل بات اس ملک کے بارے میں ہمارے طرز احساس کی ہے اور اس سوچ کی ہے کہ ہم نے اس کے وسائل کو اپنی ذاتی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اسی طرح سوچ سمجھ کر استعمال کرنا ہے۔ ہم میں سے چاہے کوئی سیکرٹری ہیلتھ ہو، خادم پنجاب ہویا کسی اور منصب پر فائز ہو،اسے سب سے پہلے یہ سوچنا ہوگا کہ آیا بجٹ اس امر کی اجازت دیتا ہے یا نہیں، کیا میں اس سرمایہ کاری کے بہترین نتائج حاصل کرسکوں گا یا نہیں اور یہ کہ اس منصوبے میں قومی وسائل کے ضیاع کا کوئی پہلو تو نہیں اور اگر ہم یہ سب کچھ نہیں کرتے تو پھر ہم نہ صرف اپنے ساتھ بلکہ قوم کے ساتھ بھی بے وفائی کے مرتکب ٹھہرتے۔ میرا خیال ہے کہ آج کی محفل کے شرکاءکو تمام امور پر اسی حوالے سے غورو خوض و بحث مباحثہ کرناچاہئے لیکن آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ اس کا ہر شہری بہترین تعلیم تک رسائی حاصل کرسکے اور پھر دانش سکول سرکار کی طرف سے کی جانے والی اس طرح کی کوئی پہلی کوشش نہیں ہے۔ وفاقی حکومت اسی طرح کی سرمایہ کاری کے ذریعے کیڈٹ کالجوں کی تعمیر کرچکی ہے لیکن وہاںداخلے کا معیار از حد مختلف ہے جبکہ ہم دانش سکولوں میں میرٹ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان غریب بچوں کو اپنے گلے لگاتے ہیں، جن کا مقدر عموماً گرد آلود گلیوں میں گھومتے اور بے سروسامانی کی حالت میں غلاظت سے اٹی ہوئی جھونپڑیوں میں بے مقصد زندگی گزارنا ہوتا ہے۔میں سمجھتا ہوںکہ پاکستان کا یہی وہ منظر نامہ ہے جو ہماری بنیادی غلطی کی نشاندہی کرتا ہے اور اسی سے ہمیںیہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ جب تک ہم غریب اور امیر کو اپنے خوابوں کی تعمیر کیلئے یکساں مواقع فراہم نہیں کرتے ہم اپنے بوسیدہ نظام کو درست نہیں کرسکتے۔     
ہمارے ملک میں امکانات اور صلاحیتوں کی کمی نہیں۔ قدرت نے ہمیں بہترین دماغوں اور وسا ئل سے نوازا ہے۔ ان میں سے بہت سے ابھی تک منظر عام پر نہیں آسکے۔ بہترین صورتحال کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہمیں بیرونی امداد پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ میں نے اس بیرونی مدد کی کبھی مخالفت نہیں کی جو ہمیں باعزت طورپر دی جائے لیکن میں یہ امر کیسے فراموش کرسکتا ہوں کہ وہ ممالک جو ہمیں امداد دیتے ہیں انہوں نے ترقی اور خود کفالت کا موجودہ منصب دوسروں کی مدد کے بغیر حاصل کیا ہے۔ یہ کام ناممکن نہیں تاہم اس کیلئے ہمیں اپنے طرز زندگی کو مکمل طورپر تبدیل کرنا ہوگا اور یہ اس وقت ممکن ہے جب ہم باب پاکستان جیسے منصوبوں کیلئے سنگ مرمر برآمد کرنا بند کردیں،جب ہم پیشگی ادائیگیو ں کے نام پر قومی خزانے کی لوٹ مار سے باز آجائیں اورجب اس محتاجی کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیں جو ہمیں بیرونی ممالک سے قرضے اور امداد لینے پر مجبور کرتی ہے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس پر چل کر ہم جناحؒ اور اقبالؒ کا پاکستان حاصل کرسکتے ہیں۔
حاضرین کرام! اگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے عوام نے ہمیں دوبارہ منتخب کیا تو ہم ان کی خدمت کا یہ سفر اسی زور و شور سے جاری رکھیں گے۔ جہاں تک بیرونی امداد کا تعلق ہے ہم اسے قبول کرتے ہوئے اپنے عزت نفس کے تقاضوں کو فراموش نہیں کریں گے اور اس امداد کو ذمہ داری کے ساتھ استعمال کریں گے۔ میں اس ضمن میں پنجاب سکلز ڈویلپمنٹ فنڈ کی مثال دیناچاہوں گا اس پروگرام نے اپنے سابقہ اور موجودہ چیئر مین کی سربراہی میں قابل تحسین کام کیا ہے۔ یہ پروگرام برطانوی حکومت کے ساتھ مساویانہ مالی شراکت کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ کوئی سیاسی شرط وابستہ نہیں ہے۔ اس کی واحد شرط یہ ہے کہ امداد کی تمام رقوم صحیح انداز میں صرف کی جائیں گی۔ ہم نے برطانیہ کے ٹیکس گزار عوام کے تعاون سے جنوبی پنجاب میں ہزاروں نوجوانوں کو مختلف فنون میں تربیت دی ہے اور اس پروگرام نے پاکستان کے بڑے بڑے تجارتی اداروں کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرائی ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جسے ہم مستقبل کا راستہ قرار دے سکتے ہیں یعنی اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو جلا بخش کر انہیں اپنے قدموں پر کھڑا کر کے مقامی اور بیرونی سطح پر روزگار حاصل کرنے کیلئے مدد کی فراہمی، ہمیں اپنے مستقبل کو تاریکیوں کی نذر ہونے سے بچانے کیلئے پوری قوت کے ساتھ بروئے کار لانا ہوگا اور اس کیلئے واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کی اس 60فیصد آبادی کے مضبوط شانوں پر انحصار کریں جو نوجوان بھی ہے، با صلاحیت بھی اور محب وطن بھی۔        




0 comments: