News reel

Followers

Wednesday, September 4, 2013

لوڈشیڈنگ کاذمہ دارکون !!

کالم نگار  |  سرتاج عزیز


ویسے تو پاکستان پیپلز پارٹی کی کارکردگی گزشتہ پانچ سال میں قریبا ہر شعبے میں مایوس کن تھی۔ لیکن لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی شکست کی سب سے بڑی وجہ بنے گا۔ اخلاقی جرا¿ت ہوتی تو اپنی نا اہلی کا اعتراف کر کے قوم سے معافی مانگی جاتی۔ لیکن مایوسی اور بد حواسی میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس مسئلے کی ذمہ داری کسی نہ کسی طرح مسلم لیگ(ن) کی طرف منتقل کر دی جائے۔ اسی لئے الیکشن کی مہم شروع ہوتے ہی بڑے بڑے گمراہ کن اشتہار دیئے گئے۔ کہ بے نظیر بھٹو کی حکومت نے 1994 میں 24000 میگاواٹ بجلی کے منصوبے منظور کیئے تھے لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 1997 میں17000میگاواٹ کے منصوبے منسوخ کر دیئے جسکی وجہ سے آج لوڈشیڈنگ ہو رہی ھے۔
میرے تجربے میں آج تک اتنے ہم قومی مسئلہ پر اس سے زیادہ غلط بیانی اور گمراہ کن موقف سامنے نہیں آیا۔ کیونکہ حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ در اصل ہماری توانائی بحران کی بنیادی وجہ پیپلز پارٹی کی 1994 کی انرجی پالیسی تھی۔ مسلم لیگ (ن) نے IPPs (انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز) کے ساتھ کیا ہوا کوئی معاہدہ ختم نہیں کیا تھا۔ صرف ان مہنگے معاہدوں کے تحت پیپلز پارٹی کیطرف سے کیے گئے نرخوں کو کم کرایا تھا۔ پیپلز پارٹی کی 1994کی توانائی پالیسی نے جس طرح قومی مفادات کو دائمی نقصان پہنچایا اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
1994میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے صرف تین ماہ میںانتہائی تیزی سے IPPs کے ساتھ 13ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کیلئے 70نئے MOUs اور اجازت نامے یعنی لیٹر آف انٹنٹ (LOIs)جاری کئے۔ 1995تک70 میں سے 27 پارٹیوں کو 6335میگاواٹ بجلی پیداکرنے کیلئے لیٹر آف سپورٹ (LOS) جاری کئے۔ان پارٹیوں نے اگلے تین چار سال میں بجلی پیدا کرنا تو شروع کردی مگر اس نے مستقبل میں بجلی کے شدید بحران کے بیج بھی بو دیئے کیونکہ اس بجلی کا انحصار در آمد شدہ تیل پرتھا۔1994-95میں خام تیل کی قیمت10سے15ڈالر فی بیرل اور فرنس آئل کی قیمت محض 2450روپے فی ٹن تھی جبکہ 2008سے خام تیل کی قیمتیں 100ڈالر فی بیرل تک بڑھ چکی ہیں۔ اور فرنس آئل کی قیمت 82ہزارروپے فی ٹن تک پہنچ گئی ہے۔گویا اس غلط پالیسی کی وجہ سے آج فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے کی فی کلو واٹ لاگت 16سے 18روپے جبکہ ڈیزل سے22سے 24روپے تک پہنچ گئی ہے ۔ ادھر حکومت بجلی اوسطا ً 9 روپے فی کلو واٹ فروخت کر رہی ہے۔ دوسرے الفاظ میں IPPs جو بجلی پیدا کرکے حکومت کو فروخت کر رہی ہیں ان پر حکومت پاکستان کو خزانے سے 9سے 15روپے فی یونٹ سبسڈی دینا پڑ رہی ہے چونکہ یہ سبسڈی مستقل بڑھ رہی ہے اور حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں، اس وجہ سے گردشی قرضے 7 سو ارب روپے تک جا پہنچے ہیں۔اور بجلی کی کمپنیوں کے پاس تیل در آمد کی صلاحیت کم تر ہو رہی ہے۔ اسی لئے تھرمل انرجی کی مجموعیcapacity 13000 میگاواٹ ہے لیکن 7 سو ارب روپے کے گردشی قرضے کی وجہ سے اِس وقت صرف 6 ہزار میگاواٹ سے بھی کم بجلی پیدا ہو رہی ہے اور طویل لوڈ شیڈنگ کی وجہ بھی یہی ہے۔ لہذا طویل لوڈ شیڈنگ کی وجہ بجلی کی پیداواری صلاحیت میں کمی نہیں بلکہ اس کی اصل وجہ 1994میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی غلط توانائی پالیسی ہے جس نے ہمارا انحصار درآمدی تیل پر اتنا زیادہ کر دیا ہے۔ یہ صورتحال IPPsسے 6335 میگاواٹ بجلی کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ خدانخواستہ اگر کسی نہ کسی طرح IPPs 17000میگاواٹ بجلی پیدا کر رہی ہوتیں تو گردشی قرضہ ناقابل برداشت حد تک بڑھ جاتا۔
1994کی توانائی پالیسی کی دوسری بڑی خامی 6.5 سینٹ فی کلو واٹ کی بنیادی قیمت مقرر کرنا تھی۔ تیل کا خرچہ اسکے علاوہ۔ اسطرح مجموعی قیمت دس امریکی سینٹ یعنی اس وقت کے 32 روپے فی ڈالر کے حساب سے 3.20روپے مقرر ہوئی۔ اس وقت واپڈا جو بجلی پیدا کر رہا تھا اس کی فی یونٹ اوسط لاگت 90پیسے فی یونٹ تھی جبکہ قیمت فروخت 1.50روپے تھی اس طرح واپڈا کو 60 پیسے فی یونٹ منافع مل رہا تھا۔ اب فی یونٹ لاگت ہی قیمت فروخت سے دگنی ہو گئی اور جیسے جیسے تیل کی قیمت میں اضافہ ہوتا تھا ، مہنگی درآمد شدہ توانائی کی قیمت بڑھتی رہی۔ اور واپڈا مستقل گھاٹے میں چلا گیا۔
تیسرا اہم پہلو Energy Mixکا ہے۔ 1994 تک ملک میں 11ہزار میگاواٹ بجلی کیلئے 60 فیصد پن بجلی اور 40 فیصد تیل اور گیس پر انحصار تھا، لیکن 1994کی توانائی پالیسی کی وجہ سے پن بجلی کا تناسب صرف 30فیصد رہ گیا اورتھرمل سے بجلی کی شرح 70فیصد ہو گئی۔ اس طرح ہمارا زیادہ انحصار در آمدی تیل پر ہو گیا۔ ہر آنیوالے سال میں در آمدی تیل پر انحصار بڑھتارہا، موسم سرما میں دریاو¿ں میں پانی کی کمی کی وجہ سے پن بجلی کی پیداوار کم ہو نے سے Energy Mix 20:80 ہو جاتا ہے۔ دنیا میں بہت کم ممالک اب تیل سے بجلی پیدا کرتے ہیں۔مثلاً ہندوستان اپنی 70 فیصد بجلی کوئلے سے، 12فیصدپانی سے اورصرف 3فیصدتیل سے پیداکررہاہے۔ جبکہ بنگلہ دیش اپنی 90فیصدبجلی گیس اورصرف 5 فیصد درآمد ی تیل سے پیداکرتاہے ۔بدقسمتی سے پاکستان اب بھی40فیصدبجلی درآمدی تیل سے پیداکررہاہے اور صرف 29-29فیصد پانی اورگیس سے پیدا کرتا ہے۔
پیپلزپارٹی کے اشتہارمیں ایک اورگمراہ کن بات حبکوپاورپراجیکٹ کے بارے میں کی گئی ہے ۔ےہ پراجیکٹ مسلم لیگ(ن) کی پہلی مرکزی حکومت کے دورےعنی 1991-92میں شروع ہواتھا اور 1996میں مکمل ہوچکاتھاجب پیپلزپارٹی کی حکومت نے 1993کے آخر میں اقتدار سنبھالا تو "حبکو پاورپراجیکٹ“ کیلئے مسلم لیگ(ن) کے دور والا معاہدہ تبدیل کردیااوراپنے 1994کی توانائی پالیسی کے مطابق پہلے سے طے شدہ بجلی کی قیمت خرید میں اضافہ کردیا،احتساب بیورونے ےہ معاہدہ تبدیل کرنے کےلئے بد عنوانی کاسراغ لگالیا اور 12 اکتوبر 1998کواس کااعلان پریس میں کردیاگیاےہاں ےہ بات بتانابھی ضروری ہے کہ حبکوپاورپراجیکٹ سے بجلی کی پیداوارمیں کوئی رکاوٹ نہیں آئی، اسی طرح جون 1998کی تمام "بیرونی کمپنیوںسے معاہدوں کی منسوخی "کی سرخیاں بھی اشتہار میں گمراہ کن ہیں۔ واپڈاکی طرف سے IPPsکی پیداہونے والی بجلی کوبہت زیادہ قیمت پرخریدنے کاپابندکردیاتھاےہ ساری اضافی قیمت قومی خزانے سے اداہورہی ہے ۔ شوکت مرزاکی سربراہی میں ماہرین کی ایک کمیٹی مقررکی گئی جس کی رپورٹ کی روشنی میں بعض IPPsکی مقررکردہ قیمتوں کو کسی حد تک کم کروایاگیا۔
 پچھلی دھائی میں مشرف حکومت نے بجلی کی پیداوارمیں کوئی اضافہ نہ کیالیکن بجلی کے خرچ میں اضافے کی پالیسی اپنائی ۔وہ اس طرح کہ بینکوں سے ائیرکنڈیشننرزاورگھریلواستعمال کیلئے بجلی سے چلنے والی دیگراشیاءخریدنے کےلئے بینکوں سے بے تحاشہ قرضے جاری کئے گئے اس طرح گھروں میں استعمال ہونیوالی بجلی کاتناسب 46فیصدہوگیا۔پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے پانچ سال کی بری حکمرانی ، اور نااہلی کی وجہ سے بجلی کے مسئلے کومزیدگھمبیربنادیا ۔ ذرا تصوّرکیجیے کہ اس حکومت نے رینٹل پاورکی شکل میں 25روپے فی ےونٹ بجلی خریدنے کامعاہدہ کیا۔ اس حکومت کے دورمیں بجلی کے لائن لاسسز(ترسیل کے دوران بجلی کاضیا ع)اوربجلی چوری کے نقصانات انتہائی زیادہ ہوچکے ہیں۔بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کاسلسلہ بھی بڑھ گیاہے۔
 لوڈشیڈنگ ختم کرنے کاطویل مدتی حل صرف ےہ ہے کہ ہم پیداواری صلاحیت میں اِس طرح اضافہ کریںکہ پیداواری لاگت 9روپے فی یونٹ سے کم ہو اور ہمارا زیادہ تر اِنحصار اپنے وسائل پر ہو۔ یعنی پن بجلی،کوئلہ اور سولر یا ونڈ انرجی۔ ساتھ ہی انرجی کے نظام میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ڈی ریگولیشن اور ڈی centralized کے ذریعے۔ اس لائحہ عمل کا تفصیلی خاکہ 
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے منشور میں قوم کے سامنے پیش کر دیا ہے۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/adarate-mazameen/01-May-2013/199122 

0 comments: